تم اوّل و آخر ہو
کالی کملی والے
اے شاہِ شبِ اسرٰی کونین کے راکھوالے
دربار الگ تیرا
جبریل ترا شیدا ، محتاج ہے جگ تیرا
بگڑی کو سنواریں گے
طیبہ کے تصوّر میں دن رات گزاریں گے
کیوں اور کسی گھر سے
جو کچھ ہمیں ملنا ہے مِلنا ہے ترے در سے
چوکھٹ تری عالی ہے
کچھ بھیک مِلے آقا! جھولی مِری خالی ہے
مِلنے ہی نہیں جاتا
شاہوں کو ترا منگتا خاطر میں نہیں لاتا
اب کون ہمارا ہے
دُولہا شبِ اسرٰی کے اک تیرا سہارا ہے
فریادی ہُوں مَیں کب کا
بس اک نظرِ رحمت ہو جاۓ بھلا سب کا
فطرت میں بلالی ہُوں
مَیں غیر سے کیوں مانگوں جب تیرا سوالی ہُوں
0 comments :
Post a Comment