Tuesday, May 20, 2014

نہ پوچھیے کہ کیا حسین ہے

نہ پوچھیے کہ کیا حسین ہے نہ پوچھیے کہ کیا حسین ہے
میرا بادشاہ حسین ہے میرا بادشاہ حسین ہے

عمل کا رہنما بھی جو شاہوں کا ہے شاہ بھی
ایسا شہنشاہ حسین ہے

سنو سنو یہ دین تو حسین کا ہمیں انعام ہے
یہ بات کس قدر حسیں جو کہہ گئے معین الدیں
کہ دین کی پناہ حسین ہے

شہید وہ شہید ہے شہیدوں کو بھی جن پہ ناز ہے
یہ ہو چکا ہے فیصلہ نہ کوئی دوسرا خدا 
نہ کوئی دوسرا حسین ہے

دعاؤوں میں نواؤں میں اُنہیں وسیلہ جو بنائے گا
نہ راستے میں موڑ ہے نہ واسطے میں موڑ ہے 
ایسی سیدھی راہ حسین ہے

شہید کربلا کا نام جس کو ناگوار ہے
وہ بد نظر ہے بد نصب اُنہیں میں یہ شمار ہے
ارے اُو منکرِ ازل تو مر ذرا قبر میں چل
پتا چلے گا کیا حسین ہے

فنا کے بعد پھر مجھے نئی حیات مل گئی
عذاب سے عتاب سے مجھے نجات مل گئی
سوال جب کیا گیا ہے کون تیرا پیشوا
تو میں نے کہہ دیا حسین ہے

0 comments :

Post a Comment