Tuesday, May 20, 2014

ہے تیری عنایات کا ڈیرہ میرا گھر میں

ہے تیری عنایات کا ڈیرہ میرا گھر میں
سب تیرا ہے کچھ بھی نہیں میرا میرے گھر میں

مدت سے میرے دل میں ہے ارمانِ زیارت
ہوجائے کرم کا کوئی پھیرا میرے گھر میں

دروازے پہ لکھا ہے تیرا اِسمِ گرامی
آتا نہیں بھولے سے اندھیرا میرے گھر میں

انداز میرے گھر کے تو کچھ اور ہی ہوں گے
جس روز قدم آئے گا تیرا میرے گھر میں

جاگا تیری نسبت سے شبِ غم کا مقدر
آیا تیرے آنے سے اُجالا میرے گھر میں

خالد کو تیرے در سے توقیر ملی ہے
سب کچھ ہے یہ احسان ہے تیرا میرے گھر میں

حاضر ہیں درِ دولت پہ گدا

حاضر ہیں درِ دولت پہ گدا سرکار توجہ فرمائیں
محتاجِ نظر ہے حال میرا سرکار توجہ فرمائیں

میں کرکے ستم اپنی جاںپر جاؤکَ لبِ حق سےسن کر
آیا ہوں بہت شرمندہ سا سرکار توجہ فرمائیں

میں کب آنے کے قابل تھا رحمت نے یہاں تک پہنچایا
سرکار پہ تن من جان فدا سرکار توجہ فرمائیں

اِ ک میں ہی نہیں پوری اُمت ساری دنیا ساری خلقت
تکتی ہے رستہ رحمت کا سرکار توجہ فرمائیں

تیری خوشبو میری چادر


وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ
تیری خوشبو میری چادر
تیرے تیور میرا زیور
تیرا شیوا میرا مسلک
وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ

میری منزل تیری آہٹ
میرا سدرہ تیری چوکھٹ
تیری گاگر میرا ساگر
تیرا سحرا میرا پنگھٹ
میں ازل سے تیرا پیاسا
نہ ہو خالی میرا کاسہ
تیرے باری تیرا بالک
وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ

تیری مدحت میری بولی
تو خزانہ میں ہوں جھولی
تیرا سایہ میری کایہ
تیرا جھونکہ میری ڈولی
تیرا رستہ میرا ہادی
تیری یادیں میری وادی
تیرے ذرے میرے دیپک
وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ

ترے دم سے دلِ وینہ
کبھی فارا کبھی سینہ
نہ ہو کیوں پھر تیری خاطر
میرا مرنا میرا جینا
یہ زمیں بھی ہو فلک سی
نظر آئے جو دھنک سی
تیرے در سے میری جاں تک
وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ

میں ہوں قطرہ تو سمندر
میری دنیا تیرے اندر
سگے داتا میرا ناطا
نہ ولی ہوں نہ قلندر
تیرے قدموں میں پڑے ہیں
میرے جیسے تو بڑے ہیں
کوئی تجھ سا نہیں بے شک
وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ

میں ادھورا تو مکمل
میں شکستہ تو مسلسل
میں سخن ور تو پیمبر
میرا مکتب تیرا اِک پل
تیری جنبش میرا خامہ
تیرا نقطہ میرا نامہ
کیا تو نے مجھے زیرک
وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ

میری سوچیں ہیں سوالی
میرا لہجہ ہو بلالی
شبِ تیرا کرے خِیرا
میرے دن بھی ہو مثالی
تیرا مظہر ہو میرا فن
رہے اُجلا میرا دامن
نہ ہو مجھ میں کوئی کالک
وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ

حسبی ربی جل اللہ ما فی قلبی غیر اللہ

حسبی ربی جل اللہ ما فی قلبی غیر اللہ
نور محمد صلی اللہ لا الہ الا اللہ

اول  و آخر ہے اللہ ظاہر و باطن ہے اللہ
حافظ و ناصر ہے اللہ لا الہ الا اللہ

کھل جائیں در جنت کے دوزخ کی سب آگ بجھے
دل سے کوئی اک بار کہے لا الہ الا اللہ

عرض غلام فقیر ہے اب داخل رحمت ہوں ہم سب
ذکر قبول ہو یہ یا رب لا الہ الا اللہ

خاک کو عظمت ملی سورج کا گوہر جاگ اُٹھا

خاک کو عظمت ملی سورج کا گوہر جاگ اُٹھا
آپ کیا آئے کہ ہستی کا مقدر جاگ اُٹھا

تیرگی سے خوف کھاکر جب پکارا آپ کو!
جسم و جاں میں روشنی کا اک سمندر جاگ اُٹھا

جب ہوئی ان کی صداقت کو شہادت کی طلب
ہاتھ میں بوجہل کے ہر ایک کنکر جاگ اُٹھا

رو کے سویا ہی تھا میں یادِ پیغمبر میں ابھی
چشمِ تر میں گنبدِ خضرا کا منظر جاگ اُٹھا

جب ہوا در پیشِ مدحِ مصطفیٰ کا معرکہ
ذہن کے میدان میں لفظوں کا لشکر جاگ اُٹھا

قافلے جب بھی مدینے کے نظر آئے صبیح
قلب مضطر کسمایا دیدۂ تر جاگ اُٹھا

سوزِ دل چاہیے چشمِ نم چاہیے

سوزِ دل چاہیے چشمِ نم چاہیے اور شوقِ طلب معتبر چاہیے
ہومیسر مدینے کی گلیاں اگر آنکھ کافی نہیں ہے نظر چاہیے

اُن کی محفل کے آداب کچھ اور ہیں لب کشائی کی جراٴت مناسب نہیں
اُن کے سرکار میں التجا کی لیے جنبش لب نہیں چشمِ تر چاہیے

رونقیں زندگی کی بہت دیکھ لیں اب میں آنکھوں کا اپنی کروں کا بھی کیا
اب نہ کچھ گفتنی ہے نہ کچھ دیدنی مجھ کو آقا کی بس اِک نظر چاہیے

میں گدائے درِ شان کونین ہوں شیش محلوں کی مجھ کو تمنا نہیں
ہو میسر زمیں پر کہ زیرِ زمیں مجھ کو طیبہ میں اِک اپنا گھر چاہیے

گوشہ گوشہ مدینے کا پُر نور ہے سارا ماحول جلووں سے معمور ہے
شرط یہ ہے کہ ظرفِ نظر چاہیے دیکھنے کے لیے دید ور چاہیے

مدحتِ سرورِ دوجہاں کے لیے صرف لفظ و وِلا کا سہارا نہ لو
فنِّ شعری ہے اقبال اپنی جگہ نعت کہنے کو خون و جگر چاہیے

اب میری نگاہوں میں جچتا نہیں کوئی

اب میری نگاہوں میں جچتا نہیں کوئی
جیسے میرے سرکار ہیں ایسا نہیں کوئی

تم سا تو حسیں آنکھ نے دیکھا نہیں کوئی
یہ شانِ لطافت ہے کہ سایہ نہیں کوئی

اے ظرفِ نظر دیکھ مگر دیکھ ادب سے
سرکار کا جلوہ ہے تماشا نہیں کوئی

یہ تجربہ ایمان ہے اے رحمتِ عالم
فریاد تمہارے سوا سنتا نہیں کوئی

یہ طُور سے کہتی ہے ابھی تک شبِ معراج
دیدار کی طاقت ہو تو پروا نہیں کوئی

وہ آنکھ جو روتی ہے غمِ عشقِ نبی میں
اس آنکھ سے رو پوش تو جلوہ نہیں کوئی

سوچو تو کبھی نسبتِ رحمت کے نتائج
تسلیم کہ ہم لوگوں میں اچھا نہیں کوئی

شمشیر وسیلہ ہے سپر رحمتِ حق ہے
سرکار کی امت میں نہتا نہیں کوئی

بیکار ہے ہر وار ترا گردشِ دوراں
وہ ہمدم و غمخوار ہیں تنہا نہیں کوئی

اعزاز یہ حاصل ہے تو حاصل ہے زمیں کو
افلاک پہ تو گنبدِ خضریٰ نہیں کوئی

ہوتا ہے جہاں ذکر محمد کے کرم کا
اس بزم میں محرومِ تمنا نہیں کوئی

درمانِ غم و در و شفائے دلِ بیمار
جز آپ کے اسے جانِ مسیحا نہیں کوئی

سرکار کی رحمت نے مگر خوب نوازا
یہ سچ ہے کہ خالد سا نکما نہیں کوئی