Tuesday, May 20, 2014

شمعِ دیں کی کیسے ہوسکتی ہے مدہم روشنی

شمعِ دیں کی کیسے ہوسکتی ہے مدہم روشنی
بزمِ طیبہ میں برستی ہے جھما جھم روشنی

خاکِ پائے شاہ کو سرمہ بنالیتا ہوں میں
میری آنکھوں میں کبھی ہوتی ہے جب کم روشنی

نورِ مطلق کے قریں بے ساختہ پہنچے حضور
روشنی سے کس قدر ہوتی ہے محرم روشنی

نقشِ پائے شہہ کی ہلکی سی جھلک ہے کارگر
کیسے ہوسکتی  ہے مہر و مہ کی مدہم روشنی

پانی پانی ہو ابھی یاد شہ کل میں صبیح
میرے اشکوں کی جو دیکھے چاہِ زم زم روشنی

اب کہاں جاؤں تڑپ کے دل کی یہ خواہش نکال

اب کہاں جاؤں تڑپ کے دل کی یہ خواہش نکال 
اے مدینے کی زمیں میری بھی گنجائش نکال

بارگاہ مصطفیٰ میں دل سے یہ آئی صدا
آج کی تاریخ سے تاریخ پیدائش نکال

پیش کردینا قمر سرمایہ نعتِ نبی
حشر میں جب حکم ہوگا نامۂ پرسش نکال

بڑھے جو کرکے وہ سوئے شہ انعام سلام

بڑھے جو کرکے وہ سوئے شہ انعام سلام
صدائیں آتی تھیں ہر سمت سے سلام سلام

بڑا ہجوم تھا طیبہ کی پہلی منزل پر
کھڑے تھے راہ میں کرنے کو خاص و عام سلام

چلے حسین جو طیبہ سے کربلا کی طرف
جہاں پہنچتے تھے کرتا تھا وہ مقام سلام

زمینِ منزل مقصود نے قدم چومے
فلک نے دور سے جھک کر کہا امام سلام

شاہ وہ جنہیں سب شاہ شاہ کہتے ہیں
امام وہ جنہیں کرتے ہیں سب امام سلام

اُنہیں سلام منور یہ چاہتا ہے جی
تمام عمر لکھوں اور نہ ہو تمام سلام

حُدود طائر سدرا حضور جانتے ہیں

حُدود طائر سدرا حضور جانتے ہیں
کہاں ہے عرشِ معلیٰ حضور جانتے ہیں

پہنچ کے سدرہ پہ روح الامین یہ بولے
کہ اس سے آگے کا رستہ حضور جانتے ہیں

بروز حشر شفاعت کریں گے چن چن کر
ہر اک غلام کا چہرہ حضور جانتے ہیں

بروز حشر شفاعت کریں گے آپ لیکن
اگر ہوا یہ عقیدہ حضور جانتے ہیں

بلا بھی سکتے ہیں آپ اور آ بھی سکتے ہیں
کہ دوریوں کو مٹانا حضور جانتے ہیں

اُنہیں خبر ہے کہیں سے پڑھو درود اُن پر
تمام دہر کا نقشہ حضور جانتے ہیں

میں اس یقین سے نکلا ہوں جانبِ طیبہ
میرے سفر کا ارادہ حضور جانتے ہیں

قیامت آئے گی کب اُن کو علم ہے سرور
ظہورِ کن کا بھی لمحہ حضور جانتے ہیں

جو ہوچکا ہے جو ہوگا حضور جانتے ہیں

جو ہوچکا ہے جو ہوگا حضور جانتے ہیں
تیری عطا سے خدایا حضور جانتے ہیں

وہ مومنوں کی تو جانوں سے بھی قریب ہوئے
کہاں سے کس نے پکارا حضور جانتے ہیں

ملے تھے راہ میں نو بار کس لیے موسیٰ
یہ دید حق کا بہانہ حضور جانتے ہیں

میں چپ کھڑا ہوں مواجہ پہ سر جھکائے ہوئے
سناؤں کیسے فسانہ حضور جانتے ہیں

چھپا رہے ہیں لگاتار میرے عیبوں کو
میں کس قدر ہوں کمینہ حضور جانتے ہیں

ہرن نے اونٹ نے چڑیوں نے کی یہی فریاد
کہ اُن کے غم کا مداوا حضور جانتے ہیں

ہرن یہ کہنے لگی چھوڑ دے مجھے سید
میں لوٹ آؤں گی واللہ حضور جانتے ہیں

بلا رہے ہیں نبی جا کے اتنا بول اسے
درخت کیسے چلے گا حضور جانتے ہیں

میں اُن کی بات کروں یہ نہیں میری اوقات
کہ شانِ فاطمہ زہرا حضور جانتے ہیں

کہاں مریں گے ابوجہل و عتبہ و شیبہ
کہ جنگ بدر کا نقشہ حضور جانتے ہیں

نہیں ہے زادِ سفر پاس جن غلاموں کے
اُنہیں بھی در پہ بلانا حضور جانتے ہیں

خدا ہی جانے عبید اُن کو ہے پتا کیا کیا
ہمیں پتا ہے بس اتنا حضور جانتے ہیں

کچھ ایسا کردے میرے کردگار آنکھوں میں

کچھ ایسا کردے میرے کردگار آنکھوں میں
کہ جلوہ گر رہے رُخ کی بہار آنکھوں میں

وہ نور دے میرے پروردگار آنکھوں
کہ جلوہ گر رہے رُخ کی بہار آنکھوں میں

بسر کے ساتھ بصیرت بھی خوب روشن ہو
لگاؤں خاکِ قدم بار بار آنکھوں میں

نظرمیں کیسے سمائیں گے پھول جنت کے
کہ بس چکے ہیں مدینے کہ خار آنکھوں میں

اُنہیں نہ دیکھا تو کس کام کی ہیں یہ آنکھیں
کہ دیکھنے کی ہے ساری بہار آنکھوں میں

یہ دل تڑپ کے کہیں آنکھوں میں نہ آجائے
کہ پھر رہا ہے کسی کا مزار آنکھوں میں

عجب نہیں کہ لکھا لَوح کا نظر آئے
جو نقشِ پا کا لگاؤں غبار آنکھوں میں

فرشتوں پوچھتے ہو مجھ سے کس کی امت ہو
لو دیکھ لو یہ ہے تصویرِ یار آنکھوں میں

کرم یہ مجھ پہ کیا ہے میرے تصور نے 
کہ آج کھینچ دی تصویرِ یار آنکھوں میں

پیا ہے جامِ محبت جو آپ نے نوری
ہمیشہ اس کا رہے گا خمار آنکھوں میں

واہ کیا لطف اٹھاتی ہیں نبی کی آنکھیں

واہ کیا لطف اٹھاتی ہیں نبی کی آنکھیں
رب کے دیدار کو پاتی ہیں نبی کی آنکھیں

دیکھ لے جس کو قسمت کا دھنی ہوجائے
بگڑی تقدیر بناتی ہیں نبی کی آنکھیں

فرش سے عرش تلک دم میں پہنچ جاتی ہیں
جب بھی نظروں کو اُٹھاتی ہیں نبی کی آنکھیں

جاگتی رہتی ہیں شب بھر وہ غمِ اُمت میں
غم سے اُمت کو بچاتی ہیں نبی کی آنکھیں

ہم گنہگاروں کے اعمال کو دھونے کے لیے
رات بھر اشک بہاتی ہیں نبی کی آنکھیں

آج موضوعِ سخن خوب مسافر نے چُنا
میرا عنوان سجاتی ہیں نبی کی آنکھیں

معجزہ میرے نبی کا کہہ دیا تو ہوگیا

معجزہ میرے نبی کا کہہ دیا تو ہوگیا
آپ نے قطرہ کو دریا کہہ دیا تو ہوگیا

ہاتھ میں تلوار لے کر آئے جب حضرت عمر
آ میرے دامن میں آجا کہہ دیا تو ہوگیا

سامنے جابر کے فرزندوں کی لاشیں دیکھ کر
حکم رب سے زندہ ہوجا کہہ دیا تو ہوگیا

آبدیدہ تھے بوقتِ عصر جب حضرت علی
ڈوبے سورج کو نکل جا کہہ دیا تو ہوگیا

مسجد نبوی میں گھر سے آپ کے ممبر تلک
آپ  نے جنت کا ٹکڑا کہہ دیا تو ہوگیا

مصطفیٰ سے ہے خدا کو پیار کتنا دیکھیے
خانۂ کعبہ کو قبلہ کہہ دیا تو ہوگیا

بدر کے میدان میں کفار کی جائے ممات
جس جگہ تھا جس کو مرنا کہہ دیا تو ہوگیا

بلیوں پہ اُن کی شفقت اور محبت دیکھ کر
مصطفیٰ نے بوہریرہ کہہ دیا تو ہوگیا

نام لے کر مصطفیٰ کا ہاتھ میں لے کر قلم
میں نے اجمل اِک قصیدہ کہہ دیا تو ہوگیا

سَیِّدِیْ اَنْتَ حَبِیْبِیْ ... مدعا زیست کا میں نے پایا

سَیِّدِیْ اَنْتَ حَبِیْبِیْ
سَیِّدِیْ اَنْتَ حَبِیْبِیْ

مدعا زیست کا میں نے پایا
رحمتِ حق نے کیا پھر سایا
میرے آقا نے کرم فرمایا
پھر مدینے کا بلاوا آیا

پہلے کچھ اشک بہالوں تو چلوں
اِک نئی نعت سنالوں تو چلوں
سَیِّدِیْ اَنْتَ حَبِیْبِیْ

چاند تارے بھی مجھے دیکھیں گے
ماہ پارے بھی مجھے دیکھیں گے
خود نظارے بھی مجھے دیکھیں گے
غم کے مارے بھی مجھے دیکھیں گے

میں نظر سب سے بچولوں تو چلوں
اِک نئی نعت سنالوں تو چلوں
سَیِّدِیْ اَنْتَ حَبِیْبِیْ

شکر میں سر کو جھکانے کے لیے
داغ حسرت کے مٹانے کے لیے
بختِ خوابیدہ جگانے کے لیے
اُن کے دربار میں جانے کے لیے

اپنی اوقات بنالوں تو چلوں
اِک نئی نعت سنالوں تو چلوں
سَیِّدِیْ اَنْتَ حَبِیْبِیْ

سامنے ہو جو درِ لطف و کرم
یوں کروں عرض کہ یا شاہِ اُمم
آگیا آپ کا محتاج کرم
اِس گناہ گار کا رکھیے گا بھرم

شوق کو عرض بنالوں تو چلوں
اِک نئی نعت سنالوں سے تو چلوں
سَیِّدِیْ اَنْتَ حَبِیْبِیْ

اُن کی مدحت میں ہے جینا میرا
کیسے ڈوبے گا سفینہ میرا
دیکھ لو چیر کے سینہ میرا
دل ہے یا شہرِ مدینہ میرا

دل ادیب دکھالوں تو چلوں
اِک نئی نعت سنالوں تو چلوں
سَیِّدِیْ اَنْتَ حَبِیْبِیْ

چمن نے آمد خیرالوریٰ کی جب خبر پائی

چمن نے آمد خیرالوریٰ کی جب خبر پائی
پۂ تعظیم خوشبو پھول سے باہر نکل آئی

سمجھتی کیا ہے دنیاعاشقانِ شاہِ بطحہٰ کو
یہ دیوانے وہ ہیں جن سے سبق لیتی ہے دانائی

عمل جب تک کیا ہم نے محمد کی شریعت پر
خدا شاہد کہ ہم سے گردشِ دوراں بھی گھبرائی

کوئی کم فہم کیا سمجھے گا ذاتِ سرورِ دیں کو
سمندر سے زیادہ جن کی باتوں میں ہے گہرائی

دل ٹھکانہ میرے حضورﷺ کا ہے

دل ٹھکانہ میرے حضورﷺ کا ہے
جلوہ خانہ میرے حضورﷺ کا ہے

ہر زمانے کی آپ رحمت ہیں
ہر زمانہ میرے حضورﷺ کا ہے

ایک پل میں ہزار عالم میں
آنا جانا میرے حضورﷺ کا ہے

جن پہ اُتری ہے آیۂ تطہیر
وہ گھرانہ میرے حضورﷺ کا ہے

مجھ سا عاصی کہاں مدینہ کہاں
یہ بلانا میرے حضورﷺ کا ہے

نعمتیں سب وہی کھلاتے ہیں
دانہ دانہ میرے حضورﷺ کا ہے

ذکر شامل نماز میں خالد
پنجگانہ میرے حضورﷺ کا ہے

ہو کرم سرکار اب تو ہوگئے غم بے شمار

ہو کرم سرکار اب تو ہوگئے غم بے شمار
جان و دل تم پر فدا اے دو جہاں کے تاجدار

میں اکیلا اور مسائل زندگی کے بے شمار
آپ کہی کچھ کیجیے نا اے شہِ عالی وفا

جا رہا ہے قافلہ طیبہ نگر روتا ہوا
میں رہا جاتا ہوں تنہا اے حبیبِ کردگار

جلد پھر تم لو بلا اور سبز گنبد تو دکھا
حاضری کی آرزو نے کردیا پھر بے قرار

قافلے والوں سُنو یاد آئے تو میرا سلام
عرض کرنا روتے روتے ہوسکے تو بار بار

گنبدِ خضریٰ کے جلوے اور وہ افطاریاں 
یاد آتی ہیں بہت رمضانِ طیبہ کی بہار

غمزدہ یوں نہ ہوا ہوتا عبیدِ قادری
اِس برس بھی دیکھتا گر سبز گنبد کی بہار

مرحبا آج چلیں گے شہہِ ابرار کے پاس

مرحبا آج چلیں گے شہہِ ابرار کے پاس
انشاء اللہ پہنچ جائیں گے سرکار کے پاس

پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں بدکار کے پاس
ڈھیروں عصیاں ہیں گنہگاروں کے سردار کے پاس

میں گنہگار گناہوں کے سِوا کیا لاتا
نیکیاں ہوتی ہیں سرکار نِکو کار کے پاس

خوب رو رو کے اُنہیں غم کا فسانہ کہنا
غمزدوں آوٴ چلیں احمدِ مختار کے پاس

ہے مدینہ میں شہادت کا طلبگار حضور
اِک بھکاری ہے کھڑا آپ کے دربار کے پاس

دونوں عالم کی بھلائی کا سُوالی بن کر
اِک بھکاری ہے کھڑا آپ کے دربار کے پاس

قبر میں یوں ہی نکیروں نہیں آیا اُن کی
ہے غلامی کی سند دیکھ لو عطار کے پاس

آیا نہ ہوگا اِس طرح حسن و شباب ریت پر

آیا نہ ہوگا اِس طرح حسن و شباب ریت پر
گلشنِ فاطمہ کے تھے سارے گلاب ریت پر

جانِ بتول کے سوا کوئی نہیں کھلا سکا
قطرہٴ آب کے بغیر اتنے گلاب ریت پر

جتنے سوال عشق نے آلِ رسول سے کیے
ایک کے بعد اِک دیے سارے جواب ریت پر

پیاسا حسین کو کہوں اتنا تو بے ادب نہیں
لمسِ لبِ حسین کو ترسا ہے آب ریت پر

عشق میں کیا بچائیے عشق میں کیا لُٹائیے
آلِ نبی نے لکھ دیا سارا نصاب ریت پر

آلِ نبی کا کام تھا آلِ نبی ہی کر گئے
کوئی نہ لکھ سکا ادیب ایسی کتاب ریت پر

راہِ وفا میں سر جو کٹایا حسین نے

راہِ وفا میں سر جو کٹایا حسین نے
در اصل ظلمتوں کو مٹایا حسین نے

ایک درس دے گئے وہ پسِ پردۂ جہاد
رشتہ یہ خوب حق سے نبھایا حسین نے

سر خم کیا نہ ظلم و ضلالت کے رو برو
اُمت کو اِس طرح سے بچایا حسین نے

دے کر زمینِ دین کو نذرانۂ لہو
نانا کی عظمتوں کو بڑھایا حسین نے

پانی بھی بند کردیا فوجِ یزید نے
اِس پر بھی صبر کرکے دِکھایا حسین نے

خاکی تم اُس زمین کے ذروں کو چوم لو
جس سر زمیں پہ خون بہایا حسین نے

نہ پوچھیے کہ کیا حسین ہے

نہ پوچھیے کہ کیا حسین ہے نہ پوچھیے کہ کیا حسین ہے
میرا بادشاہ حسین ہے میرا بادشاہ حسین ہے

عمل کا رہنما بھی جو شاہوں کا ہے شاہ بھی
ایسا شہنشاہ حسین ہے

سنو سنو یہ دین تو حسین کا ہمیں انعام ہے
یہ بات کس قدر حسیں جو کہہ گئے معین الدیں
کہ دین کی پناہ حسین ہے

شہید وہ شہید ہے شہیدوں کو بھی جن پہ ناز ہے
یہ ہو چکا ہے فیصلہ نہ کوئی دوسرا خدا 
نہ کوئی دوسرا حسین ہے

دعاؤوں میں نواؤں میں اُنہیں وسیلہ جو بنائے گا
نہ راستے میں موڑ ہے نہ واسطے میں موڑ ہے 
ایسی سیدھی راہ حسین ہے

شہید کربلا کا نام جس کو ناگوار ہے
وہ بد نظر ہے بد نصب اُنہیں میں یہ شمار ہے
ارے اُو منکرِ ازل تو مر ذرا قبر میں چل
پتا چلے گا کیا حسین ہے

فنا کے بعد پھر مجھے نئی حیات مل گئی
عذاب سے عتاب سے مجھے نجات مل گئی
سوال جب کیا گیا ہے کون تیرا پیشوا
تو میں نے کہہ دیا حسین ہے

یا خدا چرخِ اسلام پر تا ابد

یا خدا چرخِ اسلام پر تا ابد
میرا تاجِ شریعت سلامت رہے
مسلکِ اعلیٰ حضرت سلامت رہے
مسلکِ اعلیٰ حضرت سلامت رہے

اے بریلی میرا باغِ جنت ہے تو
یعنی جلوہ گہِ اعلیٰ حضرت ہے تو
بالیقیں مرکزِ اہلِ سنت ہے تو
یہ تیری مرکزیت سلامت رہے

نعرہ فیضِ رضا کا لگاتا رہوں
نجدیوں کے دلوں کو جلاتا رہوں
اور کلامِ رضا میں سُناتا رہوں
فیضِ احمد رضا تا قیامت رہے

اہلِ ایمان تو کیوں پریشان ہے
رہبری کو تیری کنزالایمان ہے
ہر قدم پر یہ تیرا نگہبان ہے
یا خدا یہ امانت سلامت رہے

روزِ محشر اگر مجھ سے پوچھے خدا
بول آلِ رسول تو لایا ہے کیا
پیش کردوں گا لایا ہوں احمد رضا
یا خدا یہ امانت سلامت رہے

لاکھ جلتے رہیں دشمنانِ رضا
کم نہ ہوں گے کبھی مدح خوانِ رضا
کہہ رہے ہیں سبھی عاشقانِ رضا
مسلکِ اعلیٰ حضرت سلامت رہے

یا رب میں گنہگار ہوں، توبہ قبول ہو

یا رب میں گنہگار ہوں، توبہ قبول ہو
عصیاں پہ شرمسار ہوں، توبہ قبول ہو
جاں سوز و دل فگار ہوں، توبہ قبول ہو
سر تا پا انکسار ہوں، توبہ قبول ہو
توبہ قبول ہو، مِری توبہ قبول ہو

گزری تمام عمر مِری لہو و لعب میں
نیکی نہیں ہے کوئی عمل کی کتاب میں
صالح عمل بھی کوئی نہیں ہے حساب میں
دستِ دُعا بلند ہے تیری جناب میں
توبہ قبول ہو میری توبہ قبول ہو

عیش و نشاط ہی میں گزاری ہے زندگی
ہر زاویے سے اپنی سنواری ہے زندگی
میرا خیال یہ تھا کہ جاری ہے زندگی
لیکن یہ حال اب ہے کہ بھاری ہے زندگی
توبہ قبول ہو میری توبہ قبول ہو

تیرے کرم کو تیری عطا کو بُھلا دیا
اعمال کی جزا و سزا کو بُھلا دیا
طاقت ملی تو کرب و بلا کو بُھلا دیا
ہر ناتوا کیا ہے رسا کو بُھلا دیا
توبہ قبول ہو میری توبہ قبول ہو

میں تو سمجھ رہا تھا کہ دولت ہے جس کے پاس
اُس کو نہ کوئی خوف ہے اُس کو نہ کچھ ہراس
ہوگا نہ زندگی میں کسی وقت وہ اُداس
لیکن وہ میری بھول تھی، اب میں ہوں محوِ یاس
توبہ قبول ہو میری توبہ قبول ہو

میں ہوں گنہگار مگر تُو تو ہے کریم
میں ہوں سیاہ کار مگر تُو تو ہے رحیم
میں ہوں پناہ پذیر مگر تُو تو ہے قدیم
میں ادنیٰ و حقیر سہی تُو تو ہے عظیم
توبہ قبول ہو میری توبہ قبول ہو

یا رب تِرے کرم تیری رحمت کا واسطہ
یا رب تِری عطا تیری نعمت کا واسطہ
یا رب تیرے جلال و جلالت کا واسطہ
یا رب رسولِ حق کی رسالت کا واسطہ
توبہ قبول ہو میری توبہ قبول ہو

میں اعتراف کرتا ہوں اپنے قصور کا
میں ہوگیا تھا ایسے گناہوں میں مبتلا
جن کی ہے آخرت میں کڑی سے کڑی سزا
لیکن مجھے تو تیرے کرم سے ہے آسرا
توبہ قبول ہو میری توبہ قبول ہو

یا رب ہے بخش دینا بندے کو کام تیرا

یا رب ہے بخش دینا بندے کو کام تیرا
محروم رہ نہ جائے کل یہ غلام تیرا

ہے تو ہی دینے والا پستی سے دے بلندی
اسفل مقام میرا اعلیٰ مقام تیرا

شمس الضحیٰ محمد بدرالدجیٰ محمد
ہے نورِ پاک روشن ہر صبح و شام تیرا

محروم کیوں رہوں میں جی بھر کے کیوں نہ لوں میں
دیتا ہے رزق سب کو ہے فیض عام تیرا

یہ داغ بھی نہ ہوگا تیرے سوا کسی کا
کونین میں ہے جو کچھ وہ ہے تمام تیرا

ایمان کی کہیں گے ایمان ہے ہمارا
احمد رسول تیرا مسحف کلام تیرا

درِ نبی پر پڑا رہوں گا پڑے ہی رہنے

درِ نبی پر پڑا رہوں گا پڑے ہی رہنے سے کام ہوگا
کبھی تو قسمت کھلے گی میری کبھی تو میرا سلام ہوگا

خلافِ معشوق کچھ ہوا ہے نہ کوئی عاشق سے کام ہوگا
خدا بھی ہوگا اُدھر ہی اے دِل جدھر وہ عالی مقام ہوگا

کیے ہی جاؤں گا عرضِ مطلب ملے گا جب تک نہ دل کا مطلب
نہ شامِ مطلب کی صبح ہوگی نہ یہ فسانہ تمام ہوگا

جو دل سے ہے مائلِ پیمبر یہ اُس کی پہچان ہے مقرر
کہ ہر دم اُس بے نوا کے لب پر درود ہوگا سلام ہوگا

اِسی توقع پہ جی رہا ہوں یہی تمنا جِلا رہی ہے
نگاہِ لطف و کرم نہ ہوگی تو مجھ کو جینا حرام ہوگا

تیرا جلوہ پیشِ نظر رہے

تیرا جلوہ پیشِ نظر رہے تجھے دیکھ کر میں جیا کروں
جہاں کوئی تیرے سوا نہ ہو میں اسی فضا میں رہا کروں

رُخِ مصطفےٰ وہ کتاب ہے جو محبتوں کا نصاب ہے
وہی میرے پیشِ نظر رہے یہی رات دن میں پڑھا کروں

مری جس قدر ہیں ضرورتیں کہیں اس سے بڑھ کے نوازشیں
مجھے دے رہے ہیں وہ بے طلب میں دُعا کروں بھی تو کیا کروں

تری یاد میری بہار ہے تیری یاد غم کا حصار ہے
ترا شکر رحمتِ دو جہاں میں کروں تو کیسے ادا کروں

جو کبھی نصیب ہو حاضری تو ملے نصیب کو یاوری
ترے سنگِ در پہ جھکا کے سر میں نمازِ عشق ادا کروں

مجھے اپنا جلوہ دکھائے جا میرے دل میں آکے سمائے جا
میں شرابِ معرفت خدا ترا نام لے کے پیا کروں

مجھے اپنی راہ چلائے جا مرے حوصلوں کو بڑھائے جا
تری جستجو مری عید ہو تری جستجو میں رہا کروں

تری یاد ہی مِرا تاج ہے تیری یاد غم کا علاج ہے
میرے دل میں تیرا ہی راج ہے تجھے یاد صبح و مسا کروں

مری خلد خالدِ بینوا یہی مدعا یہی التجا
میں نبی کی نعت لکھا کروں میں نبی کی نعت پڑھا کروں

یہ نظر حجاب نہیں رہے

یہ نظر حجاب نہیں رہے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
نہیں ان سے کوئی بھی فاصلہ یہ بہت قریب کی بات ہے

وہاں ہر طبیب ہے سر بہ خم جہاں موت آکے رکھے قدم
جو قضا کے وقت کو ٹال دے وہ میرے طبیب کی بات ہے

کوئی اس جہاں کا اسیر ہے کوئی اس جہاں کا حریص ہے
میں فدائے ذکرِ رسول ہوں یہ میرے نصیب کی بات ہے

میں بروں سے لاکھ برا سہی مگر ان سے ہے میرا واسطہ
میری لاج رکھنا میرے خدا یہ تیرے حبیب کی بات ہے

میں جیوں غریبوں کے ساتھ ہی میں اٹھوں غریبوں کے ساتھ ہی
جو بڑا غریب نواز ہے یہ اسی غریب کی بات ہے

وہ خدا نہیں ہے مجھے یقیں مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں
نہ محب کا قول کہیں جدا نہ جدا حبیب کی بات ہے

کوئی پاس رہ کے بھی دور ہے کوئی دور رہ کے بھی پاس ہے
مگر اس میں کوئی کرے گا کیا یہ فقط نصیب کی بات ہے

میری کیا مجال کہ لکھ سکوں کوئی نعت خالد بے نوا
جو نقیب عشق رسول ہے یہ اُسی نقیب کی بات ہے

منگتے ہیں کرم اُن کا سدا مانگ رہے ہیں

منگتے ہیں کرم اُن کا سدا مانگ رہے ہیں
دن رات مدینے کی دعا مانگ رہے ہیں

ہر نعمتِ کونین ہے دامن میں ہمارے
ہم صدقۂِ محبوبِ خدا مانگ رہے ہیں

اے دردِ محبت ابھی کچھ اور فزوں ہو
دیوانے تڑپنے کی ادا مانگ رہے ہیں

یوں کھوگئے سرکار کے الطاف و کرم میں
یہ بھی تو نہیں ہوش کہ کیا مانگ رہے ہیں

اسرار کرم کے فقط ان پر ہی کھلے ہیں
جو تیرے وسیلے سے دعا مانگ رہے ہیں

سرکار کا صدقہ مرے سرکار کا صدقہ
محتاج و غنی شاہ و گدا مانگ رہے ہیں

اس دورِ ترقی میں بھی ذہنوں کے اندھیرے
خورشیدِ رسالت کی ضیاء مانگ رہے ہیں

یہ مان لیا ہے کہ ترا درد ہے درماں
طالب ہیں شفا کے نہ دوا مانگ رہے ہیں

ہم کو بھی ملے دولتِ دیدار کا صدقہ
دیدار کی جراٴت بھی شہا مانگ رہے ہیں

سرکار سے سرکار کو مانگا نہیں جاتا،
اتنی بڑی سرکار س کیا مانگ رہے ہیں

دامانِ عمل میں کوئی نیکی نہیں خالد
بس نعتِ محمد کا صلہ مانگ رہے ہیں

رشتے تمام توڑ کے سارے جہاں سے ہم

رشتے تمام توڑ کے سارے جہاں سے ہم
وابستہ ہوگئے ہیں ترے آستاں سے ہم

ہر رُخ سے ہر جگہ تھی مصائب کی یورشیں
ان کا کرم نہ ہوتا تو بچتے کہاں سے ہم

ہم ہیں غلام ان کی غلامی پہ ناز ہے
پہچانے جائیں گے اسی نام و نشاں سے ہم

سرکار آپ خود ہی کرم سے نواز دیں
کچھ عرض کرسکیں گے نہ اپنی زباں سے ہم

یہ سب غمِ حبیبِ مکرم کا فیض ہے
آزاد ہوگئے ہیں غمِ دو جہاں سے ہم

دنیا سمجھ رہی ہے غنی اور ہیں غنی
پاتے ہیں بھیک ایسے سخی آستاں سے ہم

حق کرسکے ادا جو ثنائے حضورﷺ کا
ایسی زبان لائیں تو لائیں کہاں سے ہم

حارج نہیں ہے وسعتِ کون و مکاں کہیں
سنتے ہیں وہ ضرور پکاریں جہاں سے ہم

ایسا سدا بہار ہے داغِ غمِ نبیﷺ
محفوظ رہیں گے ہمیشہ خزاں سے ہم

اندازہ ہے یہ شدتِ جذبات دیکھ کر
پہنچے اگر نہ آئیں گے واپس وہاں سے ہم

سوئے حرم چلے جو مسرت کے قافلے
روئے لپٹ کے گردِ رہِ کارواں سے ہم

ایمان و آگہی ہے یہی بندگی یہی
رکھتے ہیں غم عزیز بہت اپنی جاں سے ہم

خالد درِ حضورﷺ اگر ہو گیا نصیب
دونوں جہاں لے کے اُٹھیں گے وہاں سے ہم

چلو دیارِ نبی کی جانب درود لب پر سجا سجا کر

چلو دیارِ نبی کی جانب درود لب پر سجا سجا کر
بہار لوٹیں گے ہم کرم کی دلوں کو دامن بنا بنا کر

نہ اُن کے جیسا سخی ہے کوئی نہ اُن کے جیسا غنی ہے کوئی
وہ بینواؤں کو ہر جگہ سے نوازتے ہیں بلا بلا کر

جو شاہکار انکی یاد کے ہیں امانتاً عشق نے دیے ہیں
چراغِ منزل بنیں گے اک دن رکھو وہ آنسو بچا بچاکر

ہماری ساری ضرورتوں پر کفالتوں کی نظر ہے انکی
وہ جھولیاں بھر رہے ہیں سب کی کرم کے موتی لٹا لٹا کر

وہ راہیں اب تک سجی ہوئی ہیں دلوں کا کعبہ بنی ہوئی ہیں
جہاں جہاں سے حضور گزرے ہیں نقش اپنا جما جما کر

کبھی جو میرے غریب خانے کی آپ آکر جگائیں قسمت
میں خیر مقدم کے گیت گاؤنگا اپنی پلکیں بچھا بچھا کر

تمہاری نسبت کے میں تصدق اساسِ عظمت ہے یہ تعلق
کہ انبیاء سرخرو ہوئے ہیں سرِ اطاعت جھکا جھکا کر

ہے ان کو امت سے پیار کتنا کرم ہے رحمت شعار کتنا
ہمارے جرموں کو دھو رہے ہیں حضورﷺ آنسو بہا بہا کر

میں ایسا عاصی ہوں جس کی جھولی میں کوئی حسنِ عمل نہیں ہے
مگر وہ احسان کر رہے ہیں خطائیں میری چھپا چھپا کر

یہی اساسِ عمل ہے میری اسی سے بگڑی بنی ہے میری
سمیٹتا ہوں کرم خدا کا نبی کی نعتیں سنا سنا کر

وہ آئینہ ہے رُخِ محمدﷺ کہ جس کا جوہر جمالِ رب ہے
میں دیکھ لیتا ہوں سارے جلوے تصور انکا جما جما کر

کبھی تو برسے گا ابرِ رحمت کبھی تو جاگے گی میری قسمت
کچھ اشک تیار کر رہا ہوں میں سوزِ الفت بڑھا بڑھا کر

میں تیرے قربان میرے ساقی رہے نہ ارمان کوئی باقی،
مجھے محبت کا حوصلہ دے نظر سے اپنی پلا پلا کر

مٹانے والے ہی مٹ گئے ہیں کہ تیرے سائے میں پل رہے ہیں
یہ تجربہ کر چکی ہے دنیا ہمیں ابھی تک مٹا مٹا کر

اگر مقدر نے یاوری کی اگر مدینے گیا میں خالد
قدم قدم خاک اس گلی کی میں چوم لوں گا اُٹھا اٹھا کر

نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا

نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
ساتھ ہی منشیِ رحمت کا قلم دان گیا

لے خبر جلد کہ غیروں کی طرف دھیان گیا
میرے مولیٰ مِرے آقا ترے قربان گیا

آہ وہ آنکھ کہ ناکامِ تمنّا ہی رہی
ہائے وہ دل جو ترے در سے پُر اَرمان گیا

دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا
سر وہ سر ہے جو ترے قدموں پہ قربان گیا

انھیں جانا انھیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
لِلّٰہِ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا

اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی
نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا

آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا

اُف رے منکر یہ بڑھا جوشِ تعصّب آخر
بھیڑ میں ہاتھ سے کم بخت کے ایمان گیا

جان و دل ہوش و خِرد سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا

وہ جو چاہیں چاند کو توڑ دیں

صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم

وہ جو چاہیں چاند کو توڑ دیں
اُنہیں اختیار دیا گیا
وہ پھر اُس کے ٹکڑوں کو جوڑ دیں
اُنہیں اختیار دیا گیا

صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم

جو علی کی عصر قضا ہوئی
تو وہ وقت پر ہی ادا ہوئی
چھپے آفتاب کو موڑ دیں
اُنہیں اختیار دیا گیا

کسی اُمتی کو سقر کی رخ
لیے جا رہے ہیں ملائکہ
تو پکڑ کے خلد کو موڑ دیں
اُنہیں اختیار دیا گیا

صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم

لکھوں نازش اُن کا یہ معجزہ
کہ کسی کی آنکھ نکل گئی
تو لعاب پاک سے جوڑ دیں
اُنہیں اختیار دیا گیا

صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صلی اللہ علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم

سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی

سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی
سب سے بالا و والا ہمارا نبی

اپنے مولیٰ کا پیا را ہمارا نبی
دونوں عالم کا دولھا ہمارا نبی

بزمِ آخر کا شمع فروزاں ہوا
نور اوّل کا جلوہ ہمارا نبی

جس کو شایاں ہے عرش خُدا پر جلوس
ہے وہ سلطانِ والا ہمارا نبی

بجھ گئیں جس کے آگے سبھی مشعلیں
شمع وہ لے کر آیا ہمارا نبی

جس کے تلووں کا دھوون ہے آبِ حیات
ہے وہ جانِ مسیحا ہمارا نبی

عرش و کرسی کی تھیں آئینہ بندیاں
سوئے حق جب سدھارا ہمارا نبی

خلق سے اولیا اولیا سے رسل
اور رسولوں سے اعلیٰ ہمارا نبی

حسن کھاتا ہے جس کے نمک کی قسم
وہ ملیحِ دِل آرا ہمارا نبی

ذکر سب پھیکے جب تک نہ مذکور ہو
نمکیں حسن والا ہمارا نبی

جس کی دو بوند ہیں کوثر و سلسبیل
ہے وہ رحمت کا دریا ہمارا نبی

جیسے سب کا خدا ایک ہے ویسے ہی
اِن کا اُن کا تمہارا ہمارا نبی

قرنوں بدلی رسولوں کی ہوتی رہی
چاند بدلی کا نکلا ہمارا نبی

کون دیتا ہے دینے کو منہ چاہیے
دینے والا ہے سچا ہمارا نبی

کیا خبر کتنے تارے کھِلے چھپ گئے
پر نہ ڈوبے نہ ڈوبا ہمارا نبی

ملک کونین میں انبیا تاجدار
تاجداروں کا آقا ہمارا نبی

لامکاں تک اجالا ہے جس کا وہ ہے
ہر مکاں کا اُجالا ہمارا نبی

سارے اچھوں میں اچھا سمجھیے جسے
ہے اُس اچھوں سے اچھا ہمارا نبی

انبیا سے کروں عرض کیوں مالکو!
کیا نبی ہے تمہارا ہمارا نبی

جس نے ٹکڑے کیے ہیں قمر کے وہ ہے
نور وحدت کا ٹکڑا ہمارا نبی

سب چمک والے اجلوں میں چمکا کیے
اندھے شیشوں میں چمکا ہمارا نبی

جس نے مردہ دلوں کو دی عمر ابد
ہے وہ جانِ مسیحا ہمارا نبی

غمزدوں کر رضا مژدہ دیجے کہ ہے
بیکسوں کا سَہارا ہمارا نبی

دل میں ہو یاد تیری گوشہ تنہائی ہو

دل میں ہو یاد تیری گوشہ تنہائی ہو
پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو

آج جو عیب کسی پر نہیں کھلنے دیتے
کب وہ چاہیں گے میری حشر میں رسوائی ہو

آستانہ پہ ترے سر ہو اجل آئی ہو 
اور اے جان جہاں تو بھی تماشائی ہو 

اک جھلک دیکھنے کی تاب نہیں عالم کو 
وہ اگر جلوہ کریں کون تماشائی ہو 

کبھی ایسا نہ ہوا اُن کے کرم کے صدقے
ہاتھ کے پھیلنے سے پہلے نہ بھیک آئی ہو

یہی منظور تھا قدرت کو کہ سایہ نا بنے
ایسے یکتا کے لئے ایسی ہی یکتائی ہو

اس کی قسمت پہ فدا تخت شہی کی راحت
خاک طیبہ پہ جسے چین کی نیند آئی ہو

بند جب خواب اجل سے ہوں حسن کی آنکھیں
اس کی نظروں میں تیرا جلوہ زیبائی ہو

تیری رحمتوں کا دریا سرِ عام چل رہا ہے

تیری رحمتوں کا دریا سرِ عام چل رہا ہے
مجھے بھیک مل رہی ہے میرا کام چل رہا ہے

میرے دل کی دھڑکنوں میں ہے شریک نام تیرا
اسی نام کی بدولت میرا نام چل رہا ہے

سرِ عرش نام تیرا سرِ حشر بات تیری
کہیں بات چل رہی ہے کہیں نام چل رہا ہے

اسے پوجتی ہے دنیا اسے ڈھونڈتی ہے منزل
رہ عشق مصطفی پہ جو غلام چل رہا ہے

میرے دامن گدائی میں ہے بھیک مصطفیٰ کی
اسی بھیک پر تو قاسم میرا کام چل رہا ہے

تیرے قدموں میں آنا میرا کام تھا

تیرے قدموں میں آنا میرا کام تھا
میری قسمت جگانا تیرا کام ہے
میری آنکھوں کو ہے دید کی آرزو
رخ سے پردہ اٹھانا تیرا کام ہے

تیری چوکھٹ کہاں اور کہاں یہ جبیں
تیرے فیض کرم کی تو حد ہی نہیں
جن کو دنیا میں نہ کوئی اپنا کہے
اُن کو اپنا بنانا تیرا کام ہے

باڑا بجتا ہے سلطان کونین کا
صدقہ مولیٰ علی صدقہ حسنین کا
صدقہ خواجہ پیا غوث ثقلین کا
حاضری ہوگئی یہ بھی انعام ہے

میرے دل میں تیری یاد کا راج ہے
ذہن تیرے تصور کا محتاج ہے
اک نگاہ کرم ہی میری لاج ہے
لاج میری نباہنا تیرا کام ہے

پیش ہر آرزو ہر تمنا کرو
تھام لو جالیاں التجائیں کرو
مانگنے والو دامن کشادہ کرو
کملی والے کا فیض کرم عام ہے

مر کے اپنی ہی اداؤں پہ امر ہو جاؤں

مر کے اپنی ہی اداؤں پہ امر ہو جاؤں
ان کی دہلیز کے قابل میں اگر ہوجاؤں

ان کی راہوں پہ مجھے اتنا چلانا یارب
کہ سفر کرتے ہوئے گرد سفر ہوجاؤں

زندگی نے تو سمندر میں مجھے پھینک دیا
اپنی مٹھی میں وہ لے لیں تو گوہر ہوجاؤں

میرا محبوب ہے وہ راہبر کون و مکاں
جن کی آہٹ بھی میں سن لوں تو خضر ہوجاؤں

اس قدر عشق نبی ہو کہ بھلادوں خود کو
اس قدر خوف خدا ہو کہ نڈر ہوجاؤں

ضرب دوں خود کو جو ان سے تو لگوں لاتعداد
وہ جو مجھ سے نکل جائے تو صفر ہوجاؤں

جو پہنچتی رہے ان تک جو رہے محو طواف
ایسی آواز بنوں، ایسی نظر ہوجاؤں

آرزو اب تو مظفر جو کوئی ہے تو یہ ہے
جتنا باقی ہوں مدینے میں بسر ہوجاؤں

جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے

جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے
اللہ کی رحمت کے آثارنظر آئے

منظر ہوں بیاں کیسے الفاظ نہیں ملتے
جس وقت محمد کا دربار نظر آئے

بس یاد رہا اتنا سینے سے لگی جالی
پھر یاد نہیں کیا کیا انوار نظر آئے

دکھ درد کے ماروں کو غم یاد نہیں رہتے
جب سامنے آنکھوں کے غم خوار نظر آئے

مکے کی فضاؤں میں طیبہ کی ہواؤں میں
ہم نے تو جِدھر دیکھا سرکار نظر آئے

میری ہے دعا اِتنی سرکار کے روزے پر
اللہ کرے میرا ہر یار نظر آئے

چھوڑ آیا ظہوری میں دل و جان مدینے میں
اب جینا یہاں مجھ کو دشوار نظر آئے

اُن کے جو غلام ہوگئے

اُن کے جو غلام ہوگئے
وقت کے امام ہوگئے

جب بلایا آقا نے
خود ہی انتظام ہوگئے

انبیاء کھڑے ہیں صف بہ صف
مصطفیٰ امام ہوگئے

چشم و بینا ہو تو دیکھ لو
ان کے جلوے عام ہوگئے

مصطفیٰ کی شان دیکھ کر
بادشاہ غلام ہوگئے

نام لیوا اُن کے جو ہوئے
اُن کے اونچے نام ہوگئے

واسطہ دیاجو آپ کا
میرے سارے کام ہوگئے

رخِ مصطفیٰ کو دیکھا تو دیوں نے جلنا سیکھا

رخِ مصطفیٰ کو دیکھا تو دیوں نے جلنا سیکھا
یہ کرم ہے مصطفیٰ کا، شب غم میں ڈھلنا سیکھا

یہ زمیں رکی ہوئی تھی یہ فلک تھما ہوا تھا
چلے جب میرے محمد تو جہاں نےچلنا سیکھا

بڑا خوش نصیب ہوں میں میری خوش نصیبی دیکھو
شاہ انبیاء کے ٹکڑوں پہ ہے میں نے پلنا سیکھا

میں گرا نہیں جو اب تک یہ کمال مصطفیٰ ہے
میری ذات نے نبی سے ہے صدا سنبھلنا سیکھا

میرا دل بڑا ہی بے حس تھا کبھی نہیں یہ تڑپا
سنی نعت جب نبی کی تو یہ دل مچلنا سیکھا

میں تلاش میں تھا رب کی کہاں ڈھونڈتا میں اس کو
لیا نام جب نبی کا تو خدا سے ملنا سیکھا

میں رہا خلش مظفر درِ پاک مصطفیٰ پر
میرے جذبہ عاشقی نے کہاں گھر بدلنا سیکھا

عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسول

عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسول
کہاں کہاں لیے پھرتی ہے جستجوئے رسول

بلائیں لوں تری اے جذب شوق صلی علی
کہ آج دامن دل کھنچ رہا ہے سوئے رسول

تلاش نقش کف پائے مصطفیٰ کی قسم
چنے ہیں آنکھوں سے ذرات خاک کوئے رسول

شگفتہ گلشن زہرہ کا ہر گل تر ہے
کسی میں رنگ علی ہے کسی میں بوئے رسول

پھر ان کے نشہ عرفاں کا پوچھنا کیا ہے
جو پی چکے ہیں ازل میں مئے سبوئے رسول

عجب تماشا ہو میدان حشر میں بیدم
کہ سب ہوں پیش خدا اور میں رو بروئے رسولا

کرم آج بالائے بام آگیا ہے

کرم آج بالائے بام آگیا ہے
زباں پر محمد کا نام آگیا ہے

درودوں کی بارش ہے کون و مکاں پر
کہ آج انبیاء کا امام آگیا ہے

مجھے مل گئی ہے دو عالم کی شاہی
مرا ان کے منگتوں میں نام آگیا ہے

مرے پاس کچھ بھی نہ تھا روز محشر
نبی کا وسیلہ ہی کام آگیا ہے

مزا جب ہے سرکار محشر میں کہہ دیں
وہ دیکھو ہمارا غلام آگیا ہے

چراغاں ہوا بزم ہستی میں خالد
نگاہوں میں حسن تمام آگیا ہے

آج اشک میرے نعت سنائیں تو عجب کیا

آج اشک میرے نعت سنائیں تو عجب کیا
سن کر وہ مجھے پاس بلائیں تو عجب کیا

ان پر تو گنہگار کا سب حال کھلا ہے
اس پر بھی وہ دامن میں چھپائیں تو عجب کیا

منہ ڈھانپ کے رکھنا کہ گنہگار بہت ہوں
میت کو میری دیکھنے آئیں تو عجب کیا

اے جوش جنوں پاس ادب بزم ہے جن کی
اس بزم میں تشریف وہ لائیں تو عجب کیا

دیدار کے قابل تو نہیں چشم تمنا
لیکن وہ کبھی خواب میں آئیں تو عجب کیا

پابند نوا تو نہیں فریاد کی رسمیں
آنسو یہ مرا حال سنائیں تو عجب کیا

نہ زاد سفر ہے نہ کوئی کام بھلے ہیں
پھر بھی مجھے سرکار بلائیں تو عجب کیا

حاصل جنہیں آقا کی غلامی کا شرف ہے
ٹھوکر سےوہ مردوں کو جلائیں تو عجب کیا

وہ حسن دو عالم ہیں ادیب ان کے قدم سے
صحرا میں اگر پھول کھل آئیں تو عجب کیا

روشنی کی فضا پانے والے گئے اور میں رہ گیا

روشنی کی فضا پانے والے گئے اور میں رہ گیا
در پہ سرکار کے جانے والے گئے اور میں رہ گیا

اِس برس میری تقدیر کھوٹی رہی یعنی سوتی رہی
ناز قسمت پہ فرمانے والے گئے اور میں رہ گیا

اُس درِ پاک پر کتنے پہلے پہر کتنے بارِ دِگر
زندگی کی سند لانے والے گئے اور میں رہ گیا

اے شہہ دوسرا دل پہ قابو رہے بھی تو کیسے رہے
ہم سفر میرے کہلانے والے گئے اور میں رہ گیا

بارگاہ نبی میں ہے حسن ادب حال دل کے سبب
پھول آنکھوں سے برسانے والے گئے اور میں رہ گیا

رحمتوں کا نگر شہر محبوب رب ہے جہاں سے قمر
جھولیاں بھر کے لوٹ آنے والے گئے اور میں رہ گیا

اُجالے کیوں نہ ہو دیوار و در میں

اُجالے کیوں نہ ہو دیوار و در میں
میں ذکرِ مصطفیٰ کرتا ہوں گھر میں

وہ جیسے ہیں کوئی ویسا نہیں ہے
یہی لکھا ہے تاریخِ بشر میں

مدینے جاؤں آؤں پھر سے جاؤں
خدا تا عمر رکھے اس سفر میں

چلا ہوں سوئے دربارِ رسالت
ہے میرے ساتھ اِک خوشبو سفر میں

یہاں بے مانگے ملتا ہے گدا کو
نہیں کوئی بھی در ایسا نظر میں

انہی کے نور سے تاباں ہے سورج
انہیں کی بھیک کشکول قمر میں

صبیح میں ہوں اُن کا نام لیوا
میرا نام بھی ہے اہلِ سخن میں

اتنا ملتا ہے کہ حساب نہیں

اتنا ملتا ہے کہ حساب نہیں
کون ہے وہ جو فیضیاب نہیں

نسبت مصطفےٰ سے سب کچھ ہے
ورنہ کوئی بھی کامیاب نہیں

آپ کردیں کرم تو بات بنے
ورنہ دیدار کی تو تاب نہیں

ہر نبی کا مقام اعلیٰ ہے
پر حضور آپ کا جواب نہیں

اتنے کر بیٹھا ہوں گناہ پہ گناہ
جس کا آقا کوئی حساب نہیں

جاکے طیبہ معین نعت پڑھوں
یہ حقیقت ہو کوئی خواب نہیں

کیسا وہ سماں ہوگا کیسی وہ گھڑی ہوگی

کیسا وہ سماں ہوگا کیسی وہ گھڑی ہوگی
جب پہلی نظر اُن کےروضے پہ پڑی ہوگی

رشک آیا دو عالم کو اس وقت حلیمہ پر
آقا کو لگا سینے جب گھر کو چلی ہوگی

وابستہ جو ہوجائے سرکار کے قدموں سے
ہر چیز زمانے کی قدموں میں پڑی ہوگی

کیا سامنے جاکے ہم حال اپنا سنائیں گے
سرکار کا در ہوگا اشکوں کی لڑی ہوگی

وہ شیشۂ دل غم سے میلا نہ کبھی ہوگا
تصیورِ محمد ﷺ کی جس دل میں جڑی ہوگی

اُس کوچۂ جاناں میں آہستہ قدم رکھنا
ہر جا پہ ملائک کی بارات کھڑی ہوگی

چارانہ کوئی کرنا بس اِک نعت سنا دینا
نا چیز ظہوری کی جب سانس اڑی ہوگی

یا نبی دیکھا ہے رتبہ آپ کی نعلین کا

یا نبی دیکھا ہے رتبہ آپ کی نعلین کا
عرش نے چوما ہے تلوا آپ کی نعلین کا

آپ کی خدمت کا مجھ کو کاش مل جاتا شرف
باندھتا آنکھوں سے تسمہ آپ کی نعلین کا

آپ کے قدموں کی نرمی قلب پر محسوس کی
جب بھی میں نے نقش دیکھا آپ کی نعلین کا

حشر میں جب لوگ چومیں آپ کا دستِ کرم
سب سے چھپ کر لوں میں بوسہ آپ کی نعلین کا

روزِ محشر سر پہ سورج جب سوا نیزے پہ ہو
ایک نیزے پہ ہو سایہ آپ کی نعلین کا

جس سے آگے جائیں تو جل جائیں پر جبریل کے
اُس سے آگے جانا دیکھا آپ کی نعلین کا

تاج کیوں نہ بھیک مانگے آپ کی نعلین کی
تاجور کھاتے ہیں صدقہ آپ کی نعلین کا

محبوب کی محفل کو محبوب سجاتے ہیں

محبوب کی محفل کو محبوب سجاتے ہیں
آتے ہیں وہی جن کو سرکار بلاتے ہیں

جن کا بھری دنیا میں کوئی بھی نہیں والی
اُن کو بھی میرے آقا سینےسے لگاتے ہیں

وہ لوگ خدا شاہد قسمت کے سکندر ہیں
جو سرورِ عالم کا میلاد مناتے ہیں

جو شاہِ مدینہ کو لجپال سمجھتے ہیں
دامانِ طلب بھر کر محفل سے وہ جاتے ہیں

اس آس پہ جیتا ہوں کہدے یہ کوئی آکر
چل تجھ کو مدینے میں سرکار بلاتے ہیں

اللہ نے پہنچایا سرکار کے قدموں میں

اللہ نے پہنچایا سرکار کے قدموں میں
صد شکر میں پھر آیا سرکار کے قدموں میں

رد کیسے بھلا ہوگی اب کوئی دعا میری
میں رب کو پکار آیا سرکار کے قدموں میں

کچھ کہنے سے پہلے ہی پوری ہوئی ہر خواہش
جو سوچا وہی پایا سرکار کے قدموں میں

کچھ لمحے حضور ی کے پائے تو یہ لگتا ہے
اِک عمر گزار آیا سرکار کے قدموں میں

کچھ دیر سلامی کو ٹھہرایا مواجہ پر
پھر مجھ کو ادب لایا سرکار کے قدموں میں

مجھ جیسا تہی داماں کیا نذر کو لے جاتا
اِک نعت سنا آیا سرکار کے قدموں میں

یاد آئی صبیح اپنی ہر ایک خطاء مجھ کو
اعمال پہ شرمایا سرکار کے قدموں میں

یا محمد نورِ مجسم یا حبیبی یا مولائی

یا محمد نورِ مجسم یا حبیبی یا مولائی
تصویر کمالِ محبت تنویرِ جمال خدائی

تیرا وصف بیاں ہو کس سے تیری کون کرے گا بڑائی
اس گردِ سفر میں گم ہے جبریل امیں کی رسائی

تیری ایک نظر کے طالب تیرے ایک سخن پہ قرباں
یہ سب تیرے دیوانے یہ سب تیرے شیدائی

یہ رنگ بہار گلشن یہ گل اور گل کا جوبن
تیرے نور قدم کا دھوون اس دھوون کی رعنائی

ما اجملک تیرے صورت مااحسنک تیری سیرت
مااکملک تیری عظمت تیرے ذات میں گم ہے خدائی

اے مظہر شان جمالی اے خواجۂ بندہ عالی
مجھے حشر میں کام آجاءے میرا ذوق سخن آرائی

تو رئیس روز شفاعت تو امیر لطف و عنایت
ہے ادیب کو تجھ سے نسبت یہ غلام ہے تو آقائی

آمنہ بی بی کے گلشن میں آئی ہے تازہ بہار

اللہ اللہ اللہ ہو لاالٰہ الا ہو

آمنہ بی بی کے گلشن میں آئی ہے تازہ بہار
پڑھتے ہیں صلی اللہ علیہ وسلم آج درودیوار
اللہ اللہ اللہ ہو لاالٰہ الا ہو

بارہ ربیع الاول کو آیا وہ درّ یتیم
ماہِ نبوت مہر رسالت صاحب خلق عظیم
اللہ اللہ اللہ ہو لاالٰہ الا ہو

اول و آخر سب کچھ جانے دیکھے بعید و قریب
غیب کی خبریں دینے والا اللہ کا وہ حبیب
اللہ اللہ اللہ ہو لاالٰہ الا ہو

حامد و محمود اور محمد دو جگ کے سردار
جان سے پیارا راج دلارا رحمت کی سرکار
اللہ اللہ اللہ ہو لاالٰہ الا ہو

ہم غریبوں کی قسمت سنور جائے گی

ہم غریبوں کی قسمت سنور جائے گی
آج آئے ہمارے رسولِ خدا
رحمتوں سے تیری گود بھر جائے گی
آج آئے ہمارے رسولِ خدا

آج مہکا ہوا ہے چمن در چمن
آج ہر پھول پہ ہے انوکھی پھبند
آج غاروں نے بھی ترک کردی چبھن
گود میں ہے حلیمہ کے اک گل بدن
آج ہر سو مسرت بکھر جائے گی
آج آئے ہمارے رسولِ خدا

نوح کو جیسے کوئی سفینہ ملا
ہم غریبوں کو جنت کا زینہ ملا
گود میں آمنہ کی نگینہ ملا
اور نبوت کو احمد کا سینہ ملا
آج ہر شے مہکتی نظر آئے گی
آج آئے ہمارے رسولِ خدا

نور ایماں ملا روشنی کے لیے
ایک قمر مل گیا چاندنی کے لیے
زندگی مل گئی بندگی کے لیے
ایک در مل گیا بندگی کے لیے
اے زمیں تیری قسمت سنور جائیگی
آج آئے ہمارے رسولِ خدا

شانِ سرکارِ بطحٰہ بڑی چیز ہے

شانِ سرکارِ بطحٰہ بڑی چیز ہے
دونوں عالم کا آقا بڑی چیز ہے

میری لوحِ جبیں کی یہ قسمت کہاں
اُن کی خاکِ کفِ پا بڑی چیز ہے

چاند تاروں میں ایسے اُجالے کہاں
اُن کی جالی کا پردہ بڑی چیز ہے

اُن کے در کی حضوری کا کیا پوچھنا
اُن کے در کی تمنا بڑی چیز ہے

تاج دارانِ عالم کے کیا مرتبے
اُن کے در کا بھکاری بڑی چیز ہے

اے منور تجھے اور کیا چاہیے
اُن کے در کا سہارا بڑی چیز ہے

منگتے خالی ہاتھ نہ لوٹے

منگتے خالی ہاتھ نہ لوٹے کتنی ملی خیرات نہ پوچھو
اُن کا کرم پھر اُن کا کرم ہے اُن کے کرم کی بات نہ پوچھو

کُنتُ کنزاً راز مشیت جلوۂ اسریٰ نورِ ہدایت
جگمگ جگمگ دونوں عالم کیسی ہے وہ ذات نہ پوچھو

عشقِ نبی کونین کی دولت! عشقِ نبی بخشش کی ضمانت
اس سے بڑھ کر دستِ طلب میں ہے بھی کوئی سوغات نہ پوچھو

رشک جناں طیبہ کی گلیاں ہر ذرّہ فردوس بداماں
چاروں طرف انوار کا عالم رحمت کی برسات نہ پوچھو

ظاہر میں تسکینِ دل و جاں باطن میں معراج دل و جاں
نامِ نبی پھر نامِ نبی ہے نامِ نبی کی بات نہ پوچھو

حال اگر کچھ اپنا سُنایا اُن کے کرم کا شکوہ ہوگا
میں اپنے حالات میں خوش ہوں مجھ سے مرے حالات نہ پوچھو

تاجِ شفاعت سر پر پہنے حشر کا دولہا آ پہنچا ہے
آنکھیں کھولو غور سے دیکھو کس کی ہے بارات نہ پوچھو

میں کیا اور کیا میری حقیقت سب کچھ ہے سرکار کی نسبت
میں تو برا ہوں لیکن میری لاج ہے کس کے ہاتھ نہ پوچھو

خالد میں صرف اتنا کہوں گا جاگ اُٹھا اشکوں کا مقدر
عشقِ نبی میں روتے روتے کیسے کٹی ہے رات نہ پوچھو

کوئی سلیقہ ہے آرزو کا

کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے

کسی کا احسان کیوں اُٹھائیں کسی کو حالات کیوں بتاءیں
تمھیں سے مانگیں گے تم ہی دو گے تمھارے در سے ہی لو لگی ہے

تجلیوں کے کفیل تم ہو مرادِ قلبِ خلیل تم ہو
خدا کی روشن دلیل تم ہو یہ سب تمہاری ہی روشنی ہے

تمہیں ہو روحِ روانِ ہستی سکوں نظر کا دلوں کی مستی
ہے دو جہاں کی بہار تم سے تمہیں سے پھولوں میں تازگی ہے

شعور و فکر و نظر کے دعوے حدِ تعین سے بڑھ نہ پائے
نہ چھو سکے اِن بلندیوں کو جہاں مقامِ محمدی ہے

نظر نظر رحمتِ سراپا ادا ادا غیرتِ مسیحا
ضمیرِ مردہ بھی جی اُٹھے ہیں جِدھر تمہاری نظر اُٹھی ہے

عمل کی میرے اساس کیا ہے بجز ندامت کے پاس کیا ہے
رہے سلامت تمہاری نسبت مرا تو اک آسرا یہی ہے

عطا کیا مجھ کو دردِ اُلفت کہاں تھی یہ پُر خطا کی قسمت
میں اس کرم کے کہاں تھا قابل حضور کی بندہ پروری ہے

اُنہی کے در سے خدا ملا ہے انہیں سے اس کا پتہ چلا ہے
وہ آئینہ جو خدا نما ہے جمالِ حسن حضور ہی ہے

بشیر کہیے نذیر کہیے انہیں سراجِ منیر کہیے
جو سَر بَسر ہے کلامِ ربی وہ میرے آقا کی زندگی ہے

ثنائے محبوبِ حق کے قرباں سرورِ جاں کا یہی ہے عُنواں
ہر ایک مستی فنا بداماں یہ کیف ہی کیفِ سرمدی ہے

ہم اپنے اعمال جانتے ہیں ہم اپنی نسبت سے کچھ نہیں ہیں
تمہارے در کی عظیم نسبت متاعِ عظمت بنی ہوئی ہے

یہی ہے خالد اساسِ رحمت یہی ہے خالد بنائے عظمت
نبی کا عرفان زندگی ہے نبی کا عرفان بندگی ہے

روک لیتی ہے آپ کی نسبت

روک لیتی ہے آپ کی نسبت تیر جتنے بھی ہم پہ چلتے ہیں
یہ کرم ہے حضور کا ہم پر آنے والے عذاب ٹلتے ہیں

ہیں کریم وکرم خصال وہی بھیک دیتے ہیں حسبِ حال وہی
اُن کو آتا نہیں زوال کبھی قسمتیں جن کی وہ بدلتیں ہیں

اب کوئی کیا ہمیں گرائے گا ہر سہارا گلے لگائے گا
ہم نے خود کو گرا لیا ہے وہاں گرنے والے جہاں سنبھلتے ہیں

وہی بھرتے ہیں جھولیاں سب کی وہ سمجھتے ہیں بولیاں سب کی
آؤ بازار مصطفیٰ کو چلیں کھوٹے سکے وہیں پہ چلتے ہیں

اپنی اوقات صرف اتنی ہے کچھ نہیں بات صرف ا تنی ہے
کل بھی ٹکڑوں پہ اُن کے پلتے تھے اب بھی ٹکڑوں پہ اُن کے پلتے ہیں

ذکر سرکار کے حوالوں کو بے نہایت ہیں رفعتیں خالد
یہ اُجالے نہیں جو سمٹیں گے یہ وہ سورج نہیں جو ڈھلتے ہیں

اپنی نسبت سے میں کچھ نہیں ہوں

اپنی نسبت سے میں کچھ نہیں ہوں اِس کرم کی بدولت بڑا ہوں
اُن ٹکڑوں سے اعزاز پاکر تاجداروں کی صف میں کھڑا ہوں

دیکھتا ہوں جب اُن کی عطائیں بھول جاتا ہوں اپنی خطائیں
سر ندامت سے اُٹھتا نہیں ہے جب میں اپنی طرف دیکھتا ہوں

دیکھنے والوں مجھ کو نہ دیکھو دیکھنا ہے اگر تو یہ دیکھو
کس کے دامن سے وابستہ ہوں میں کون والی ہے کس کا گدا ہوں

اِس کرم کو مگر کیا کہو گے میں نے مانا میں سب سے برا ہوں
جو بروں کو سمیٹے ہوئے ہیں اُن کے قدموں میں میں بھی پڑا ہوں

شافع مذنباں کے کرم نے لاج رکھ لی میرے کھوٹے پن کی
نسبتوں کا کرم ہے یہ خالد کھوٹا ہوتے ہوئے بھی کھرا ہوں

ہے تیری عنایات کا ڈیرہ میرا گھر میں

ہے تیری عنایات کا ڈیرہ میرا گھر میں
سب تیرا ہے کچھ بھی نہیں میرا میرے گھر میں

مدت سے میرے دل میں ہے ارمانِ زیارت
ہوجائے کرم کا کوئی پھیرا میرے گھر میں

دروازے پہ لکھا ہے تیرا اِسمِ گرامی
آتا نہیں بھولے سے اندھیرا میرے گھر میں

انداز میرے گھر کے تو کچھ اور ہی ہوں گے
جس روز قدم آئے گا تیرا میرے گھر میں

جاگا تیری نسبت سے شبِ غم کا مقدر
آیا تیرے آنے سے اُجالا میرے گھر میں

خالد کو تیرے در سے توقیر ملی ہے
سب کچھ ہے یہ احسان ہے تیرا میرے گھر میں