Tuesday, May 20, 2014

پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفی کہ یوں

پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفی کہ یوں
کیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتائے کیا کہ یوں

قصرِ دنیٰ کے راز میں عقلیں تو گُم ہیں جیسی ہیں
رُوحِ قدس سے پوچھئے تم نے بھی کچھ سنا کہ یوں

میں نے کہا کہ جلوۂ اصل میں کس طرح گمیں
صبح نے نورِ مہر میں مٹ کے دِکھا دیا کہ یوں

ہائے رے ذوقِ بے خودی دل جو سنبھلنے سا لگا
چھک کے مہک میں پھول کی گرنے لگی صبا کہ یوں

دل کو دے نور و داغِ عشق پھر میں فدا دو نیم کر
مانا ہے سن کے شقِ ماہ آنکھوں سے اب دکھا کہ یوں

دل کو ہے فکر کس طرح مُردے جلاتے ہیں حضور
اے میں فِدا لگا کر ایک ٹھوکر اسے بتا کہ یوں

باغ میں شکرِ وصال تھا، ہجر میں ہائے ہائے گل
کام ہے ان کے ذکر سے خیر وہ یوں ہوا کہ یوں

جو کہے شعر و پاسِ شرع دونوں کا حسن کیونکر آئے
لا اسے پیشِ جلوۂ زمزمۂ رضا کہ یوں

0 comments :

Post a Comment