وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اےبہار پھرتے ہیں
جو تِرے در سے یار پھرتے ہیں
در بدر یوں ہی خوار پھرتے ہیں
ہر چرغِ مزار پر قدسی
کیسے پروانہ وار پھرتے ہیں
لاکھوں قدسی ہیں کامِ خدمت پر
لاکھوں گردِ مزار پھرتے ہیں
پھول کیا دیکھو میری آنکھوں میں
دشتِ طیبہ کے خار پھرتے ہیں
ہائے غافل وہ کیا جگہ ہے جہاں
پانچ جاتے ہیں چار پھرتے ہیں
اُس گلی کا گدا ہوں میں جس میں
مانگتے تاجدار پھرتے ہیں
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے کتنے ہزار پھرتے ہیں
0 comments :
Post a Comment