مٹا دل سے غمِ زادِ سفر آہستہ آہستہ
تصور میں چلا طیبہ نگر آہستہ آہستہ
زباں کو تابِ گویائی نہیں رہتی مدینہ میں
صدا دیتی ہے لیکن چشمِ تر آہستہ آہستہ
اُتاری روح کی بستی میں جلوؤں کی دھنک اس نے
شکستِ شب پہ ہو جیسے سحر آہستہ آہستہ
جگائے علم کے سورج سکھائی لفظ کی حرمت
کیے وا آگہی کے سارے در آہستہ آہستہ
محبت کا سلیقہ دے دیا وحشی قبائل کو
مٹا صدیوں کی رنجش کا اثر آہستہ آہستہ
صبیح اُن کی ثنا اور تو کہ جیسے برف کی کشتی
کرے سورج کی جانب طے سفر آہستہ آہستہ
0 comments :
Post a Comment