ختم ہونے ہی کو ہے در بدری کا موسم
جلد دیکھوں گا میں شہرِ نبی کا موسم
فرش پر عرش کے حالات سنائے ہم کو
اُن کے آنے سے گیا بے خبری کا موسم
آپ نے آکے بتائے ہیں بصیرت کے رموز
آپ سے سب کو ملا خوش نگہی کا موسم
اُن کی نسبت سے دعاؤں کا شجر سبزا ہوا
ورنہ ٹلتا ہی نہ تھا بے ثمری کا موسم
گنبد سبز کو چوما تو نظر نے پایا...!
حق شناسی کا ثمر دیدہ وری کا موسم
تنگ دامانی پہ شرمندہ ہوں اپنی ہی صبیح
دین میں اُن کی کہاں ورنہ کہاں کا موسم
0 comments :
Post a Comment