ٹھہری ہوئی آنکھوں میں جدائی کی گھڑی ہے
شب آخری طیبہ کی میرے سر پہ کھڑی ہے
کیا عرض و تمنّا ہے کہ ملتے نہیں الفاظ
دنیائے تمنّا ہے جو ہونٹوں پہ اڑی ہے
روتے ہوئے سامانِ سفر باندھ رہے ہیں
محسوس یہ ہوتا ہے قیامت کی گھڑی ہے
کھنچتے چلے جاتے ہیں قدم سوئے حرم پھر
یہ شہرِ مدینہ سے نکلنے کی گھڑی ہے
لوٹا ہے مدینے سے ریاض اپنا بدن ہی
جو روح ہے وہ اب بھی مواجہ پہ کھڑی ہے
0 comments :
Post a Comment