Monday, May 19, 2014

جو لمحے تھے سکوں کے سب مدینے میں گزار آئے

جو لمحے تھے سکوں کے سب مدینے میں گزار آئے
وطن میں اے دل مضطر تجھے کیسے قرار آئے

خزاں کو حکم ہے داخل نہ ہو طیبہ کی گلیوں میں
اجازت ہے نسیم آئے صبا آئے بہار آئے

وہ بستی اہل دل کی اور دیوانوں کی بستی ہے
گئے جتنے خرد نازاں وہ دامن تار تار آئے

جبیں ہو آستاں پر ہاتھ میں روزے کی جالی ہو
یہ لمحہ زندگی میں اے خدا پھر بار بار آئے

تعین مسجد و محراب کا طیبہ میں کیا ہوتا
جہاں نقشِ قدم دیکھے وہیں سجدے گزار آئے

قلم جب سے ہوا خم نعت احمد  میں ادیب اپنا
بہت رنگیں ہوئے مضموں بڑے نقش و نگار آئے

0 comments :

Post a Comment